نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خواتین: ایک سماجی مطالعہ: ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی رح
تبصرہ :راجہ قاسم محمود
ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی رح سیرت نگاری کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ “نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خواتین: ایک سماجی مطالعہ” ڈاکٹر صاحب کی سیرت مقدسہ کے حوالے سے ایک اہم کتاب ہے۔ یہ کتاب دو سو پانچ صفحات پر مشتمل ہے، اس کے کم صفحات کو دیکھ کر میں نے سوچا تھا کہ تین چار روز میں ختم کر لوں گا مگر اس کتاب کے ہر ہر صفحہ پر مجھے رکنا پڑا اور اندازہ ہوا کہ یہ کتاب سرسری پڑھنے والی نہیں ہے اور مجھے پڑھتے ہوئے دس سے بارہ دن لگے۔
کتاب کا مقدمہ بہت جاندار ہے جس میں ڈاکٹر صاحب رح نے عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خواتین کے مضبوط سماجی کردار کا ذکر کیا ہے۔ اور بتایا ہے کہ معاشرے میں ان کا کردار بہت متحرک تھا۔ تجارت،تعلیم پھر طبابت و جراحت میں ان کا کردار بہت اہم تھا کچھ مجاہدات صحابیات بھی تھیں جنہوں نے غزوات میں بھرپور حصہ لیا۔ ایسے ہی کئی صحابیات اکثر زیارت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شرف یاب ہوتیں جس کے نتیجے میں شریعت کے کئی احکامات نازل ہوئے کچھ خوش نصیب صحابیات کے دولت کدوں پر سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ خود جاتے تھے۔ شادی کے معاملات میں خواتین کی پسند و ناپسند کا خصوصی خیال رکھا جاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب رح نے مقدمہ میں بتایا ہے کہ عہد نبوی کی عورت ایک آزاد، فعال اور مضبوط عورت تھی۔
ڈاکٹر صاحب نے مختلف سماجی جہات سے عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عورت اور پھر خود سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ کی روشنی میں خواتین کے کردار پر الگ الگ بحث کی ہے۔
اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے ابواب کو مندرجہ ذیل نام دئیے ہیں۔
۱.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواتین کے گھر میں
۲.مدنی خواتین کے گھروں میں
۳.خواتین بیت نبوی میں
۴.کاشانہ نبوی میں مدنی خواتین
۵.زیارات خواتین اور اشاعت حدیث
۶. احکام اسلام کا ارتقا اور زیارات خواتین
۷.غزوات نبوی میں خواتین
۸.خواتین کی تزویج نبوی
۹.عورتوں کا حق خرید و فروخت اور کسب معاش
۱۰.صحابہ کرام اور خواتین کے معاشرتی تعلقات
۱۱. عورتوں کی شکایات اور ان کا ازالہ
۱۲. اختلاط مرد و زن کے اصول نبوی
یہ بارہ ابواب اس کتاب کا حصہ ہیں اور ہر باب ایک مقالہ معلوم ہوتا ہے جو اپنے موضوع کے لحاظ سے بہت اہم اور پڑھنے کے لائق ہے۔ ہر ایک پر تفصیل سے بات کرنا میرے لئے قدرے ناممکن ہے مگر ہر ایک پر مختصر بات کی کوشش کرتا ہوں۔
پہلے باب میں مکی دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے مختلف خواتین کے گھروں میں جانے کا ذکر ہے۔ بالخصوص بعثت کے بعد آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام اپنی پھوپھیوں کے گھر گئے اور پھوپھیوں کے مشورے سے قریبی رشتے داروں کو دعوت دینے کے غرض سے بنو عبد مناف کے گھر میں جمع کیا۔ پھوپھیوں کا مشورہ تھا کہ خواتین کو جمع نہ کیا جائے وہ اپنے مردوں کے تابع ہوتی ہیں یہ بات مان لی گئی، پھوپھیوں کا دوسرا مشورہ تھا کہ ابو لہب کو دعوت نہ دی جائے کیونکہ وہ بدنظمی پیدا کرے گا یہ بات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں مانی۔
پھوپھیوں کے علاوہ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کا اپنی چچیوں سے ملاقات کے لیے ان کے گھر جانے کا بھی ذکر ہے۔ان میں جناب زبیر بن عبدالمطلب ہاشمی کی بیوی عاتکہ بنت ابی وہب مخزومی، حضرت ابو طالب کی بیوی حضرت سیدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا اور حضرت سیدنا عباس کی بیوی حضرت سیدہ ام الفضل لبابہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کے ہاں کثرت سے جاتے تھے۔ ایسے ہی اپنی چچا زاد بہن حضرت سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کے ہاں بھی آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے جانے کی روایات ملتی ہیں۔ پھر حضرت سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کے گھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باقاعدگی سے جایا کرتے تھے بلکہ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے وصال کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ، حضرت سیدنا عمر اور حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم اپنے دور خلافت میں حضرت سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کے ہاں ان کی زیارت کرنے جاتے تھے۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر بھی آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ہجرت سے پہلے جانا عام تھا۔
زیارات کا یہ سلسلہ مدنی دور میں بھی قائم رہا دوسرے باب میں اس دور کی زیارات کا بیان ہے جن میں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تایا زاد بہن حضرت صباعہ بنت زبیر،حضرت ام حکیم بنت زبیر کے ہاں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام ان کی پرسش احوال کے لیے اکثر جاتے تھے۔
حضرت سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت ہند خولانیہ رضی اللہ عنہا سے ایک بار ملاقات کا ذکر کیا جس میں وہ حضرت سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ سے ناراض معلوم ہوئیں تو آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ان کو نصحیت کی کہ حضرت سیدنا بلال سے ناراض نہ رہا کریں۔
متعدد مہاجرات و انصاری خواتین جن کے ہاں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام جایا کرتے تھے کا ذکر ہے۔
جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کئی خواتین کے گھر جانے کا ذکر ملتا ہے تو دوسری جانب کثرت سے خواتین آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے خدمت میں حاضری دیتی تھیں۔مکی و مدنی دونوں ادوار میں یہ سلسلہ جاری رہا، حضرت ثویبہ کا آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی زیارت کے لئے آنے اور آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ان سے حسن سلوک فرمانا ثابت ہے ایسے ہی حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا بھی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا کرتی تھیں۔ حضرت سیدہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد بھی حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے آنے کی روایت ملتی ہے۔ حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلی حضرت نفیسہ بنت منیہ رضی اللہ عنہا کا ذکر ملتا ہے کہ وہ حاضر ہوئیں اور یہ ہی ام المومنین کا پیغام نکاح لے کر آنے والی تھیں۔حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن حضرت ہالہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا سے بھی آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام بخوبی واقف تھے۔ بخاری کی ایک روایت ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام حضرت سیدہ خدیجہ کی سہیلیوں کے گھر بکری کا گوشت بھیجا کرتے تھے۔
حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی والدہ حضرت ام عبد بنت عبدو دہذلی کثرت سے خانہ اقدس میں حاضری دیتی تھیں، گویا اہل بیت کی فرد معلوم ہوتی تھیں. اس کے علاوہ بھی متعدد خواتین جیسے کہ حضرت ام کلثوم بنت عقبہ، حضرت آمنہ بنت قیس اسدی، حضرت ام قیس بنت محصن، حضرت رقیقہ بنت ابی صیفی ہاشمی یہ حضرت عبدالمطلب ہاشمی سے بھی عمر میں بڑی تھیں اور اسلام لانے سے پہلے اپنے بیٹے حضرت مخرمہ بن نوفل رضی اللہ عنہ پر ظلم کرتی تھیں بعد میں اسلام لے آئیں،حضرت برکہ بنت یسار رضی اللہ عنہم سمیت کئی خواتین کا ڈاکٹر صاحب نے ذکر کیا ہے جو مکی دور میں در اقدس حاضر ہوئیں۔
چوتھے باب میں مدنی دور میں در اقدس پر حاضری دینے والی صحابیات کا ذکر ہے جن میں مہاجرات بھی ہیں اور بعد از فتح مکہ اسلام قبول کرنے والی مکی خواتین کا بھی ذکر ہے۔ مہاجرات میں حضرت ام سنبلہ و حضرت ام سنان بنو اسلم سے تھیں حاضر ہوئیں۔ جبکہ حضرت ہند بنت عتبہ، حضرت فاطمہ بنت ولید اور حضرت ام حکیم بنت حارث مخزومی جو حضرت عکرمہ بن ابی جہل کی بیوی تھیں فتح مکہ والے دن حاضر خدمت ہو کر مسلمان ہوئیں۔
پانچواں باب انصاری خواتین کے در اقدس پر حاضری کے بارے میں ہے۔ اس بارے میں ایک اہم بات ڈاکٹر صاحب رح نے کی ہے کہ مدنی خواتین مکی خواتین کی نسبتاً زیادہ آزاد تھیں اور ہجرت کے بعد مہاجرات نے بھی اس آزادی کو اپنایا۔ اس پر کئی مہاجر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شکایت بھی ہوئی مگر چونکہ یہ آزادی اسلامی اقدار کے منافی نہ تھی تو مہاجر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کو قبول کرنا پڑا۔
انصاری خواتین میں حضرت ام ربیع بنت برا خزرجی رضی اللہ عنہا کے بارگاہ اقدس میں آنے کا ذکر ملتا ہے جن کے بیٹے حضرت سیدنا حارثہ بن سراقہ رضی اللہ عنہ نے غزوہ بدر میں شہادت پائی۔ سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو ان کے بیٹے کی جنت میں ہونے کی بشارت دی جس پر انہیں تسلی ہوئی۔
ایک اور خاتون حضرت ام زفر رضی اللہ عنہا بھی حاضر خدمت ہوئیں جن کو مرگی کے دورے پڑتے تھے۔ انہوں نے آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام سے ایک دعا کی درخواست کی کہ مرگی کے دوروں کے دوران میرا ستر نہ کھلا کرے۔
حضرت ام مالک انصاریہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں گھی بطور ہدیہ لائیں تھیں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے حضرت سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو کہا کہ گھی نچوڑ کر کپی واپس کر دیں۔ اس کپی میں اتنی برکت تھی کہ بڑے عرصے تک حضرت ام مالک رضی اللہ عنہا اس گھی کو استعمال کرتی تھیں۔
اس کے علاوہ بھی اس باب میں مختلف خوش قسمت خواتین کا ذکر ہے مگر اوپر کی مثالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صحابیات اپنے ایمان کی تسلی اور بڑھاوے کی خاطر، کبھی اپنے بیماریوں کے علاج کی خاطر، مشورہ و شکایت کے لیے اور ہدایہ کی پیشکش کے سلسلے میں بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آتی رہتی تھیں۔
صحابیات کی ان زیارات سے تعلیم امت کا بہت اہم کام بھی سامنے آیا۔ ان ملاقاتوں سے باقی امت کو راہنمائی ملی اور احادیث کی شکل میں دین کا ایک ماخذ ہمارے سامنے آیا۔ پانچواں اور چھٹا باب اس کے متعلق ہے۔جیسے کہ حضرت ام مالک انصاریہ رضی اللہ عنہا جب خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں تو ان کو دس دس بار سبحان اللہ،الحمدللہ اور اللہ اکبر پڑھنے کی تلقین کی گئی۔ ایسے ہی ایک بار حضرت سیدہ نساء العالمین رضی اللہ عنہا کو سید العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تینتیس تینتیس بار سبحان اللہ اور الحمدللہ اور چونتیس بار اللہ اکبر کی تسبیح پڑھنے کی تلقین کی۔ یوں ان ملاقاتوں سے مسنون اذکار کی تعلیم امت کو منتقل ہوئی۔ ایک صحابیہ حضرت حولاء بنت تویت رضی اللہ عنہا رات بھر عبادت کرتی تھیں ان کو حکم فرمایا کہ اپنی بساط پر عمل کیا کریں کیونکہ رب تعالیٰ تو عاجز نہیں آ سکتا آپ تھک جائیں گی۔ اس کے علاوہ طہارت، طلاق اور رضاعت سمیت متعدد فقہی احکامات کی مثالیں ڈاکٹر صاحب نے یہاں دیں ہیں جس کا علم امت کو صحابیات کے ذریعے سے پہنچا۔
غزوات میں بھی صحابیات نے اپنا حصہ ڈالا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ساتویں باب میں اس ہی کو موضوع بنایا ہے اور ہر غزوہ میں صحابیات کی خدمت کا ذکر کیا ہے۔ ماسوائے غزوہ بدر کے ہر غزوہ میں خواتین کی شرکت کا پتہ ملتا ہے۔ کچھ خواتین نے تو ہتھیاروں سے جنگ کی جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپی حضرت سیدہ صفیہ بنت عبد المطلب رضی اللہ عنہا کے بارے میں ایک روایت ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا کی بہادری و جدوجہد کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے قدرے تفصیل سے لکھا۔ غزوہ احد میں یہ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی حفاظت کرنے پہنچ گئیں۔ غزوہ احد کے بعد کے غزوات میں بھی آپ رضی اللہ عنہا کی شراکت کا ذکر ہے۔ اس کے علاوہ اور صحابیات جیسے کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا جو حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں حنین میں خنجر لیکر پہنچ گئیں۔
غزوات میں خواتین کی ایک اور طرح سے شرکت بطور معاون کے تھی جو زخمیوں کی مرہم پٹی اور ان کو پانی پلانے کے متعلق تھی۔ اس بارے میں بھی خواتین اسلام کا کردار قابل فخر تھا۔ امہات المومنین میں سے حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ اور حضرت سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ بات ملتی ہے۔ اس کے علاوہ حضرت سیدہ نساء العالمین رضی اللہ عنہا نے غزوہ احد میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زخموں کا علاج کیا۔ اس کے علاوہ حضرت سیدہ رفیدہ انصاریہ رضی اللہ عنہا کا ذکر ضروری ہے جو کہ ماہر طبیب و جراح تھیں۔ غزوہ خندق میں جب حضرت سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد نبوی کے صحن میں حضرت سیدہ رفیدہ انصاریہ رضی اللہ عنہا کا خیمہ لگوایا جہاں وہ دیگر زخمیوں کا علاج کرتی تھیں۔ حضرت سیدہ رفیدہ انصاریہ کے علاوہ حضرت ام سنان اسلمی اہم جراح و طبیبہ تھیں۔ اس کے علاوہ بھی ماہر طبیب و جراح صحابیات موجود تھیں جنہوں نے غزوات میں اپنی خدمات پیش کیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد خواتین کی شادیوں کا انتظام کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکی دور میں یہ کام کیا اور مدنی دور میں بھی، آٹھواں باب اس کے متعلق ہے۔ مکی دور میں حضرت سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کی شادی آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی کوششوں سے ہوئی، ایک اور خوش نصیب حضرت سلمی رضی اللہ عنہا تھیں یہ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے اولاد میں دایہ رہیں، حضرت سیدہ نساء العالمین رضی اللہ عنہا کے بچوں کی ولادت میں دایہ کا کردار بھی انہوں نے ادا کیا ان کی شادی حضرت سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ سے آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے کروائی، اپنی تایا زاد بہنوں حضرت صباعہ بنت زبیر، حضرت ام حکیم بنت زبیر، حضرت صفیہ بنت زبیر رضی اللہ عنہم کا نکاح آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے کروایا۔
مدنی عہد میں حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی حضرت امامہ بنت حمزہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت سلمہ بن ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے کروائی۔ ایک اور خاتون حضرت سیدہ امامہ بنت ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیر کفالت تھیں ان کا نکاح حضرت سیدنا عباد بن سنان اسلمی رضی اللہ عنہا سے آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے کروایا۔ خوش نصیب صحابیات میں حضرت فارعہ بنت اسعد بن زرارہ اور ان کی دو اور بہنیں حضرت حبیبہ اور حضرت کبشہ رضی اللہ عنہم بھی آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زیر کفالت تھیں کیونکہ ان کے والد نے بوقت وفات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا وصی مقرر کیا تھا۔
اس باب میں ڈاکٹر صاحب رح نے حضرت سیدہ نساء العالمین رضی اللہ عنہا کی شادی کے حوالے سے مال متاع دئیے جانے کی بابت وضاحت کی ہے کہ یہ جہیز نہیں تھا بلکہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی ذاتی کمائی سے فراہم کیا تھا۔
نویں باب میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور کی عورت کو معاشی خودمختاری حاصل تھی، اس وقت کی عورت کو کسب معاش کا حق حاصل تھا اور ان کو مکمل مواقع بھی فراہم کیے گئے۔بلکہ دو جاہلیت میں بھی خواتین مختلف پیشوں سے وابستہ تھیں۔
حضرت سیدہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تجارت سے وابستہ ہونا تو مشہور ہے، اس کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہا کی بہن حضرت سیدہ ہالہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا چمڑے کی تجارت مکی دور کرتی تھیں۔اس سے پہلے دور جاہلیت و دور اسلام میں ابو جہل کی ماں اسماء بنت مخربہ ثقفی عطر فروشی کا کام کرتی تھں۔ ان کے فرزند حضرت عبداللہ بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ یمن سے عطر لایا کرتے تھے۔ ایک صحابیہ حضرت قیلہ انماریہ رضی اللہ عنہا نے آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پاس حج یا عمرہ کے ایام میں مروہ کے پاس تجارت کے احکامات پوچھے۔ امہات المومنین میں حضرت سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا دستکاری کرتی تھیں، حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زوجہ کا نام بھی زینب تھا یہ بھی دستکار خاتون تھیں اور زینب کے نام سے ایک اور انصاری خاتون جو حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں وہ بھی اپنے ہاتھوں کاریگری کرتی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس مقالے میں ایک غفاری اجیر کا بھی ذکر کیا ہے جو اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک چراگاہ میں سرکاری جانوروں کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے۔ ایسے ہی طبابت و جراحت کا ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے اس فن میں خواتین کو کمال حاصل تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری ایام میں حضرت سیدہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ نے آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دہن مبارک میں دوا ڈالی۔ زراعت کے شعبے سے بھی خواتین وابستہ تھیں حضرت سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو اپنے والد کی آمدنی میں سے زرعی جائیداد کا حصہ ملا جہاں سے شہد آیا کرتا تھا۔ عرب کے جاہلی و مسلم معاشرے میں لڑکیوں کا ختنہ بھی کیا جاتا تھا، تو اس کو انجام دینے کے لیے بھی عورتیں تھیں مکہ مکرمہ کی ایک ختانہ کا نام ام السباع تھا جو بنو خزاعہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ بازار کے افسر کے طور پر بھی ایک خاتون حضرت شفاء کے تقرر کا ذکر ملتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاتون معاشی طور پر اپنے خاندان کی معاونت بھی کرتی تھی اور جو خاتون اپنے فن میں ماہر تھیں ان کو مکمل مواقع بھی ملتے تھے اور بارگاہ اقدس سے حوصلہ افزائی بھی ہوتی تھی۔
دسواں باب صحابہ کرام اور خواتین کے معاشرتی تعلقات کے بارے میں ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بھی خواتین کے معاشرتی تعلقات تھے اور یہ معاشرتی میل جول اسلام سے پہلے جاہلیت میں بھی تھا،ان روابط میں اسلام نے کچھ اصلاحات کیں اور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکمیل دین کے ساتھ تعمیر تہذیب کا بھی کام کیا۔
اختلاط مرد و زن کے حوالے سے حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ورقہ بن نوفل رحمۃ اللہ علیہ کی باہمی ملاقاتوں کا پتہ چلتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت ورسالت کے بعد حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا نے ذاتی طور پر حضرت ورقہ بن نوفل سے کئی انفرادی ملاقاتیں کیں۔
حضرت سیدنا خباب بن ارت تمیمی رضی اللہ عنہا حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بہن حضرت فاطمہ بنت خطاب اور بہنوئی حضرت سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو قرآن مجید کی تعلیم دینے ان کے گھر جایا کرتے تھے۔ حضرت سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کے واقعے پر قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اور بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ معمول تھا۔ پھر ہجرت حبشہ میں مرد و خواتین اکٹھے حبشہ گئے وہاں قیام کے دوران مہاجرین و مہاجرات کا اجتماعی نظم و نسق قائم تھا نجاشی کے دربار میں جانے سے پہلے صحابیات سے مشاورت ہوئی اس سلسلے میں حضرت ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا کردار واضح نظر آتا ہے۔
حضرت سیدنا ابودرداء انصاری اور حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہم مواخاتی بھائی تھے۔ حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اپنے مواخاتی بھائی کے گھر اکثر جاتے رہتے تھے ایک بار حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ موجود نہیں تھے کہ ان کی بیوی نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کی عدم توجہی کی شکایت کی، جس پر حضرت سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی کی اصلاح کی اور ان کو اعتدال و میانہ روی کی نصیحت فرمائی۔
اس باب میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ صحابہ کرام اور صحابیات کے مابین معاشرتی میل جول جس میں دین کی حدود کا مکمل لحاظ رکھا جاتا تھا قائم تھا۔
بارگاہ اقدس میں خواتین اپنی شکایات بھی لیکر حاضر ہوتی تھیں، ڈاکٹر صاحب کا گیارہواں باب اس موضوع پر ہے۔ان شکایات میں سے کچھ جبری شادیوں کے متعلق بھی تھیں جن کو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کالعدم قرار دیا اس کی متعدد مثالیں ڈاکٹر صاحب نے پیش کی ہیں ان میں سے ایک حضرت سیدہ خنساء بنت خذام رضی اللہ عنہا کا نکاح ان کے والد رضی اللہ عنہ نے کسی شخص سے کر دیا، یہ نکاح ان کو ناپسند تھا۔ حضرت خنساء بنت خذام رضی اللہ عنہا اس رشتے کی ناپسندیدگی کی شکایت لیکر بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئیں تو آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے یہ نکاح فسخ کر دیا۔ حضرت سیدہ خنساء بنت خذام رضی اللہ عنہا کو حضرت سیدنا ابو لبابہ رضی اللہ عنہ پسند تھے اس فسخ کے بعد آپ نے حضرت سیدنا ابو لبابہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا۔
حضرت زینب بنت عثمان رضی اللہ عنہا جو حضرت سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہیں کا نکاح ان کے چچا حضرت سیدنا قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ جو ان کے والد کے انتقال کے بعد سرپرست تھے نے کسی شخص سے کیا یہ اپنی والدہ کے ساتھ شکایت لیکر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے نکاح کو مسترد فرما دیا۔
کچھ خواتین اپنے شوہروں کی عدم توجہی کی شکایات بھی لیکر حاضر ہوتی تھیں ان میں ایک حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم کی بیوی تھیں جنہوں نے حضرت سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی کثرت عبادت کے باعث اپنی طرف عدم توجہی کی شکایت کی تو آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم کو اعتدال و توازن کا حکم فرمایا اور حق زوجیت ادا کرنے کی نصیحت فرمائی۔
نان و نفقہ کے حوالے سے بھی خواتین نے اپنی شکایات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رکھیں۔ حضرت ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی کنجوسی کی شکایت کی تو آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ضرورت کی حد تک ان کی جیب سے رقم نکالنے کی اجازت دی۔
حضرت سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے خلع کے لیے بارگاہ اقدس میں حاضری دی اور فرمایا کہ انہیں حضرت سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے اخلاق یا دین پر کوئی اعتراض نہیں بس میں ان کو برداشت نہیں کر سکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باغ جو حضرت سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نے انہیں دیا تھا کہ بدلے ان کو حضرت سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے طلاق دلوا دی۔
یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ عہد نبوی میں خواتین مختلف امور کی شکایات آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے سامنے بلاجھجک پیش کرتی تھیں اور آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام ان کا مکمل ازالہ بھی فرمایا کرتے تھے۔
آخری باب میں ڈاکٹر صاحب نے اختلاط مرد و زن کے اصول جو ہمیں سیرت مبارکہ سے ملتے ہیں پر گفتگو کی ہے اور اس بارے میں موجودہ مذہبی طبقے کی جانب سے سخت پابندیوں پر ہلکا پھلکا نقد کیا ہے۔ بیشک دین ناصرف گناہ کو روکتا ہے بلکہ اس کی طرف کھلنے والے دروازوں کو بھی بند کرتا ہے لیکن حد سے زیادہ احتیاط نے اس رویہ کو بے لچک بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عورتوں کو باہر کام اور ضرورت پر نکلنے کی مکمل آزادی تھی اور یہ آزادی حجاب کے احکامات نازل ہونے کے بعد بھی حاصل رہی، بس اسلام نے حدود و قیود کا تعین کر دیا ہے۔
عورتوں کے مسجد میں جانے کے حوالے سے بھی ڈاکٹر صاحب رح نے لکھا ہے کہ اس میں سماج کو مدنظر رکھنا چاہیے جن معاشروں میں عورتیں مساجد میں جاتی ہیں اور ان کا انتظام ہے تو ان کو جانا چاہیے جہاں حالات اس کے برعکس ہیں تو وہاں ہر اصرار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ شریعت نے عورت کو اس حوالے سے رعایت دی ہے تو اس لیے اس کو سماج روایت کے مطابق دیکھنا چاہیے۔
اسلام نے عورتوں کو ذاتی ملکیت اور کاروبار کرنے کا مکمل حق دیا ہے جس کی نظیر امہات المومنین و دیگر صحابیات کے ہاں موجود ہے۔اس مقالے میں جہاں احتیاط کے نام پر سختی پر ڈاکٹر صاحب نے تنقید کی ہے وہاں تجدد پسندوں کی جانب سے بے ہنگم آزادی کی بات کو بھی ڈاکٹر صاحب رح نے رد کیا ہے۔ یہ باب مرد و زن کے اختلاط کے آداب کے حوالے سے ایک عمدہ مقالہ ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ تحریر کافی لمبی ہو چکی ہے مگر مجبور تھا کہ کتاب کے مختلف پہلوؤں کو ذکر کرنا ضروری تھا اب بھی بہت سی اہم باتیں مزید طوالت کے خوف سے رہ گئی ہیں۔مگر اپنے موضوع کے لحاظ سے ڈاکٹر صاحب نے کی یہ عمدہ اور بہترین تالیف ہے اور بالخصوص خواتین کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
بشکریہ:راجہ قاسم محمود
Reviews
There are no reviews yet.